Tuesday, February 9, 2021

Manwath Taluka

 ضلع پریشد اردومڈل اسکول تاڑب بور گاؤں تعلقہ مانوت 









                                   السلام علیکم                                                               معزز اساتذہ کرام                                                                                بتاریخ 8 فروری ۲۰۲۱ بروز پیر کو ضلع پریشد اردو مڈل اسکول، تاڑبور گاؤں میں ملاقاتی تقریب اسکول کی سابق صدر معلمہ محترمہ شاہین باجی کی صدارت میں عمل میں آئی۔ملاقاتی تقریب کا حصہ بنی اسی اسکول میں اپنی خدمت انجام پزیر معلمہ محترمہ احمدی باجی جن کی اسکول میں تشریف رکھتے ہی بچوں کے خوشی کی کوئی انتہا  نہ تھی بچوں کی خوشی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ جماعت پنجم تا ہشتم کے طلباء نے اپنی خود آموزشی صلاحیت سے گلدستہ تیارکر کے محترمہ احمدی باجی کو تحفہ پیش کیا تقریب میں اپنے شاعرانہ انداز سے تمہیدی کلمات پیش کرپرلطف کیا اسکول کے صدر مدرس جناب جمیل رنگریز سر نے،میں تو دو روز قبل کا ایک ادنی ملازم یک سوئی سے اس تقریب کو اپنے ذہن میں اتار رہا تھا۔تب ہی جماعت ہفتم و ہشتم کے طالب علم دانش اور رضوان  کے اظہارِ خیالات نے منظر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ رضوان اور دانش نے دوران اظہارِ خیالات دونوں کی  آنکھیں نم ہونے کے ساتھ ساتھ باقی طلبہ بھی اپنے آپ کو روک نہیں پائے ان کی بھی آنکھیں نم ہوئی وہیں میرے ذہن نے جواب دیا کہ اساتذہ کی محبت ان کی خدمت بچوں میں پروان چڑھتی ہے تو قوم کے بچوں میں ایسے جذبات ترقی کی بلندیاں چھوتی نظر آتی ہے۔ایسے ہی بچوں کی تعریف میں اپنے خیالات پیش کررہے اسکول کے صدر مدرس جناب جمیل رنگریز سر نے ہیرے اور ہیرو کی مثال دے کر اپنے خیالات میں شاعری کی مٹھاس ڈالتے ہوئے بڑے ہی اچھے انداز میں تقریب کو پائے تکمیل تک پہنچایا۔بعد اس کے مہمانِ خصوصی محترمہ احمدی باجی نے اپنے اس اسکول پر ۲۰۰۸ سے انجام دی گئی خدمت کو اپنے خیالات میں پیش کیا ،جماعتوں میں اضافہ سے اسکول کی ترقی کا سہرا ساتھ خدمت انجام دینے والے اساتذہ کے ساتھ ساتھ باجی کے سررہا۔اسی طرح تدریس سے منسلک تمام باتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے صدارتی کلمات میں محترمہ شاہین باجی نے کس طرح احمدی باجی نے اپنے خدماتی عرصہ میں بڑی بہن اور ماں کی ممتا کی کمی محسوس نہ ہونے دیے۔جہاں جہاں ہمیں سیکھنے میں اپنی کمیوں کو پرا کرنے میں احمدی باجی کا اہم رول رہا ایسے ہی پرجوش خیالات کو پیش کرتے ہوئے اپنے کلمات کا اختتام کیا۔ناچیز نے حصہ میں آئی اظہارِ تشکر ذمہ داری کو نبھایا اسی طرح یہ تقریب بڑی محبت خلوص، دعا کے ساتھ پائے تکمیل تک پہنچی۔دعا کیجئے کہ یہ ادارہ   اسی طرح تمام اساتذہ کی محنت سے ترقی کے ساتھ ہمیشہ کامیابی کی بلندیوں کو چھوتا رہے۔(آمین)        جنیدخان (مدرس)   تاڑبورگاؤں تعلقہ ما نوت

Saturday, February 6, 2021

ابو الفاخر زین العابدین عبد الکلام


ابو الفاخر زین العابدین عبد الکلام



 ابو الفاخر زین العابدین عبد الکلام (مختصراً: اے پی جے عبد الکلام) بھارت کے سابق صدر اور معروف جوہری سائنس دان، جو 15 اکتوبر1931ء کو ریاست تمل ناڈو میں پیدا ہوئے اور 27 جولائی 2015ء کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔ عبد الکلام بھارت کے گیارہویں صدر تھے، انہیں بھارت کے اعلٰی ترین شہری اعزازات پدم بھوشن، پدم وبھوشن اور بھارت رتن بھی ملے۔ عبد الکلام کی صدارت کا دور 25 جولائی 2007ء کو اختتام پزیر ہوا۔

ابتدائی زندگی

ڈاکٹر عبد الکلام کا تعلق تمل ناڈو کے ایک متوسط خاندان سے تھا۔ ان کے والد ماہی گیروں کو اپنی کشتی کرائے پر دیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ ان پڑھ تھے، لیکن عبد الکلام کی زندگی پر ان کے والد کے گہرے اثرات ہیں۔ ان کے دیے ہوئے عملی زندگی کے سبق عبد الکلام کے بہت کام آئے۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ ابتدائی تعلیم کے دوران بھی عبد الکلام اپنے علاقے میں اخبار تقسیم کیا کرتے تھے۔ انہوں نے مدراس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے خلائی سائنس میں گریجویشن کی۔ اور اس کے بعد اس کرافٹ منصوبے پر کام کرنے والے دفاعی تحقیقاتی ادارے کو جوائن کیا جہاں ہندوستان کے پہلے سیٹلائٹ طیارے پر کام ہو رہا تھا۔ اس سیارچہ کی لانچنگ میں ڈاکٹر عبد الکلام کی خدمات سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس کے علاوہ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر انہوں نے پہلے سیٹلائٹ جہاز ایسیلوا کی لانچنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

سیاسی زندگی

15 اکتوبر 1931ء کو پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبد الکلام نے 1974ء میں بھارت کا پہلا ایٹم بم تجربہ کیا تھا جس کے باعث انہیں ’میزائل مین‘ بھی کہا جاتا ہے۔
بھارت کے گیارہویں صدر کے انتخاب میں انھوں نے 89 فیصد ووٹ لے کر اپنی واحد حریف لکشمی سہگل کو شکست دی ہے۔ عبد الکلام کے بھارتی صدر منتخب ہونے کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں تھا، ووٹنگ محض ایک رسمی کارروائی تھی۔

عبد الکلام بھارت کے تیسرے مسلمان صدر تھے۔ انہیں ملک کے مرکزی اور ریاستی انتخابی حلقوں کے تقریباً پانچ ہزار اراکین نے منتخب کیا

وفات

عبد الکلام 83 برس کی عمر میں، 27 جولائی 2015ء بروز پیر شیلانگ میں ایک تقریب کے دوران سابق بھارتی صدر کو اچانک دل کا دورہ پڑا جس سے وہ وہیں گر پڑے اور انہیں انتہائی تشویشناک حالت میں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے اور دم توڑ دیا۔

اعزازات

عبد الکلام کو حکومت ہند کی طرف سے 1981ء میں آئی اے ایس کے ضمن میں پدم بھوشن اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ عبد الکلام کو بھارت کے سب سے بڑے شہری اعزاز بھارت رتن سے 1997ء میں نوازا گیا۔[17] 18 جولائی، 2002ء کو عبد الکلام کو نوے فیصد اکثریت کی طرف سے بھارت کا صدر منتخب کیا گیا اور انہوں نے 25 جولائی کو اپنا عہدہ سنبھالا، اس عہدے کے لیے ان کی نامزدگی اس وقت کی حکمراں قومی جمہوری اتحاد کی حکومت نے کیا تھا جسے انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت حاصل تھی۔ صدر کے عہدے کے لیے نامزدگی پر ان کی مخالفت کرنے والوں میں اس وقت سب سے اہم جماعت بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی اور دیگر بائیں بازو کی ساتھی جماعتیں تھیں۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے اپنی طرف سے 87 سالہ محترمہ لکشمی سہگل کا اندراج کیا تھا جو سبھاش چندر بوس کے آزاد ہند فوج اور دوسری جنگ عظیم میں اپنے شراکت کے لیے معروف ہیں۔

خان عبد الغفار خان اتمانزئی


خان عبد الغفار خان اتمانزئی



 خان عبد الغفار خان اتمانزئی پشتونوں کے سیاسی راہنما کے طور پر مشہور شخصیت ہیں، جنھوں نے برطانوی دور میں عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کیا۔ خان عبد الغفار خان زندگی بھر عدم تشدد کے حامی رہے اور مہاتما گاندھی کے بڑے مداحوں میں سے ایک تھے۔ آپ کے مداحوں میں آپ کو باچا خان اور سرحدی گاندھی کے طور پر پکارا جاتا ہے۔

خان عبدالغفار خان محمد زیٔی قبیلے کے پختونوں میں سے ہیں۔ وہ اتمان زیٔ گاؤں میں 1890ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ایڈورڈ مشن ہائی اسکول پشاور میں تعلیم حاص کی۔ ان کے والد بہرام خان خوانین اور زمین دار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں انگریز افسروں میں عزت اور رسوخ حاصل تھا۔ مقامی طور پر نہ پڑھ سکنے کے سبب خان عبدالغفار خان کو ان کے والد نے ولایت بھیجنا چاہا مگر ماں کی مامتا نے باہر نہ جانے دیا۔ آپ 1919ء میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک میں حصہ لینے کے ذریعے سیاست میں داخل ہوئے اور چھے ماہ قید کاٹی۔ 1920ء میں ہجرت تحریک میں شریک ہوکر افغانستان گئے مگر تحریک ناکام ہونے کے سبب واپس آگئے۔ 1921ء میں آپ نے اپنے گاؤں اتمان زیٔی میں ایک دینی مدرسہ قائم کرکے اسے قوم پرستی کے نقطۂ نگاہ سے چلانا شروع کیا۔ انگریز کے چیف کمشنر سر جان میضے نے ان کے والد کو بلا کر مدرسہ بند کرنے کے لیے کہا۔ کیوں کہ وہاں انگریزوں کے خلاف تعلیم دی جاتی تھی۔ باوجود اس کے مدرسہ چلتا رہا، جس پر ناراض ہوکر انگریزوں نے انھیں ضمانت داخل کرنے کے لیے کہا۔ 1921ء میں ہی انھوں نے خلافت تحریک میں حصہ لیا اور تین سال سزا بھگتی۔ 1924ء میں جیل سے نکلے اور مسلمانوں میں غلط رسوم کے خاتمے کے لیے “انجمنِ اصلاحِ افغان ” قائم کی۔ 1926ء میں سب کارکنوں کے ہمراہ کلکتہ میں کانگریس کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ 1929ء میں آل انڈیا کانگریس کے اجلاس منعقدہ لاہور میں حصہ لیا۔ 1930ء میں انھوں نے “خدائی خدمت گار تحریک ” شروع کی، جسے “سرخ پوش ” تحریک بھی کہا گیا۔ 1930ء میں گاندھی جی نے “ستیہ گرہ ” کی تحریک شروع کی تو عبدالغفار خان نے ہزاروں افراد کے ساتھ صوبائی کانگریس کمیٹی کے تحت شاہی باغ پشاور میں کانگریس کے پروگرام “نمک کا قانون توڑنے” میں حصہ لیا۔ 22 اپریل کو جلوس نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ جب 23 اپریل کو جلوس نکلا اور قصہ خوانی بازار پہنچا، تو اس پر فائرنگ کی گئی جو چار گھنٹے جاری رہی جس میں سیکڑوں ہندو اور مسلمان مارے گئے۔ 57 افراد کے نام ظاہر کیے گئے۔ 38 لاشیں اسپتال والوں نے نامعلوم قرار دے کر دفنا دیں، 550 زخمی اسپتال میں داخل ہوئے۔ 30 اپریل 1930ء کو خان عبدالغفار خان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ 11 مئی 1930ء کو سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز ہوا۔ جس میں غلام محمد آف لوند خوڑ غفار خان کے پیروکار کو گرفتار کرکے تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ اس پر لوگ مشتعل ہوگئے۔ حکومت کی طرف سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوگئے۔ 26 مئی 1930ء کو ایک سردار گنگا سنگھ (جو سرکاری ملازم) تھا، بڑے بازار سے اپنی بیوی بچوں کے ساتھ تانگے میں جا رہا تھا کہ ایک انگریز افسر نے اُسے اور اُس کے دونوں بچوں کو مار دیا۔ ان کا جنازہ اٹھا کر ہزاروں افراد جلوس کی شکل میں نکلے، تو انگریزوں نے آکر راستہ روک لیا۔ لوگوں نے کہا کہ وہ صرف جنازہ لے جانا چاہتے ہیں۔ ان کا کوئی خراب ارادہ نہیں ہے، مگر انگریزوں نے فائرنگ کی جس میں 11 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے۔ 28 فروری 1931ء کو اتمان زیٔ میں ایک بڑا جلوس نکلا، پولیس کی لاٹھی چارج کے باوجود لوگ منتشر نہ ہوئے، لہٰذا ان پر گولی چلا دی گئی اور متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ 10 مارچ 1931ء کو گاندھی ارون معاہدہ ہوا۔ دوسرے سیاسی قیدیوں کو آزاد کرلیا گیا لیکن خان عبدالغفار خان کو نہ چھوڑا گیا جس پر گاندھی نے “لارڈ ارون” سے ملاقات کرکے کہا کہ اگر باچا خان کو نہ چھوڑا گیا، تو وہ معاہدہ ختم کرکے جیل جانے کو تیار ہوجائیں گے۔ اس کے بعد گاندھی جی نے بادشاہ خان (خان عبدالغفار خان) سے جیل میں ملاقات کرکے کہا کہ انگریزوں کا کہنا ہے کہ سرخ پوش جماعت کو کانگریس میں ضم کر دیا جائے۔ بادشاہ خان اس کے لیے تیار نہ تھے لیکن سر صاحب زادہ عبدالقیوم خان کو جو انگریزوں کے آدمی تھے اور صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں انگریز کے بعد دوسرے نمبر پر تھے، کو جب پتا چلا کہ انگریز کسی طرح سے پختونوں کی طاقت توڑنا چاہتے ہیں، تو انھوں نے خان عبدالغفار خان کو کہلوا بھیجا اور “پختون ولی” کا واسطہ دے کر کسی طرح آل انڈیا پارٹی میں شامل ہونے کو کہا، تاکہ پختونوں کا زیادہ نقصان نہ ہو۔ اس پر بادشاہ خان نے حامی بھرلی اور باقاعدہ کانگریس میں شامل ہوگئے۔ گجرات جیل سے نکل کر جب وہ جلوس کی صورت میں پشاور پہنچے، تو جلوس میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ اس کے بعد انھیں “سرحدی گاندھی” کا خطاب دیا گیا۔ رہائی کے بعد کانگریس کے پروگرام کے تحت انھوں نے سرحد میں کانگریس کے لیے کام کیا جس پر انھیں دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ ان کی رہائی کے لیے پورے صوبے میں تحریک چلی اور نتیجے میں پندرہ ہزار رضا کار جیل گئے۔ 1932ء تا 1934ء خان عبدالغفار خان ہزارہ جیل میں رہے۔ رہائی کے بعد ان کے سرحد اور پنجاب میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی، لہٰذا وہ کچھ وقت واردھا میں گاندھی جی کے پاس رہے۔ 1935ء میں ہندوستان کو صوبائی خود مختاری ملی۔ ڈاکٹر خان صاحب اور بادشاہ خان پر سے پابندی ختم کی گئی۔ ڈاکٹر خان صاحب سرحد گئے لیکن بادشاہ خان نے بمبئی میں آل انڈیا سودیشی نمائش کے افتتاح پر تقریر کی جس پر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا اور انہیں تین سال جیل بھیج دیا گیا۔ 1937ء کے آخر میں وہ دوبارہ وطن لوٹے تو ان کا زبردست استقبال ہوا اور اٹک سے پشاور تک جلوس نکلا۔ ستمبر 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی جس میں کانگریس نے حکومت کی حمایت کا مشروط اعلان کیا۔ اس پر ناراض ہوکر بادشاہ خان کانگریس سے الگ ہوگئے اور دوبارہ “خدائی خدمت گار تحریک” کے لیے کام شروع کر دیا، مگر جب انگریزوں نے کانگریس کی شرائط تسلیم کیں، تو بادشاہ خان پھر کانگریس میں شامل ہوگئے۔ 8 اگست 1946ء میں جب آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے “ہندوستان چھوڑو” کی قرارداد پاس کی، تو سرحد میں بھی گرفتاریاں ہوئیں اور بادشاہ خان کو جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں سے وہ 1945ء میں رہا ہوئے۔ اسی سال بہار اور بنگال میں زبردست قحط پڑا، تو بادشاہ خان نے بہار پہنچ کر پورے صوبے کا دورہ کیا۔ 14 اگست 1947ء کو تقسیم عمل میں آئی۔ غفار خان نے تقسیم کے مخالف ہونے کے باوجود کانگریس کے فیصلے کو تسلیم کیا۔ اس کے بعد جب فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، تو مسلم لیگ نے ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت کو بر طرف کرکے خان عبدالقیوم خان کو وزارت سونپ دی، جنھوں نے “بابڑا” میں سرخ پوشوں پر فائرنگ کروائی جس میں سیکڑوں پختون شہید ہوئے۔

آپ جنرل ایوب خان، آغا یحییٰ خان اور بھٹو کے دورِ حکومت تک اپنی مرضی سے افغانستان میں مقیم رہے اور بعد میں پختونوں کے ایک جرگے کی جلوس کی شکل میں 1972ء میں اپنے مادر وطن پر قدم رکھا۔ آپ پہلے اپنے خاندان کے افراد کے دباؤ پر برطانوی فوج میں شامل ہوئے، لیکن ایک برطانوی افسر کے پشتونوں کے ساتھ ناروا رویے اور نسل پرستی کی وجہ سے فوج کی نوکری چھوڑ دی۔ بعد میں انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ اپنی والدہ کے کہنے پر موخر کیا۔ برطانوی راج کے خلاف کئی بار جب تحاریک کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو خان عبد الغفار خان نے عمرانی تحریک چلانے اور پختون قبائل میں اصلاحات کو اپنا مقصد حیات بنا لیا۔ اس سوچ نے انھیں جنوبی ایشیاء کی ایک نہایت قابل ذکر تحریک خدائی خدمتگار تحریک شروع کرنے پر مجبور کیا۔ اس تحریک کی کامیابی نے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پابند سلاسل کیا گیا۔ 1920ء کے اواخر میں بدترین ہوتے حالات میں انھوں نے مہاتما گاندھی اور انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ الحاق کر دیا، جو اس وقت عدم تشدد کی سب سے بڑی حامی جماعت تصور کی جاتی تھی۔ یہ الحاق 1947ء میں آزادی تک قائم رہا۔ جنوبی ایشیا کی آزادی کے بعد خان عبد الغفار خان کو امن کے نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ 1960ء اور 1970ء کا درمیانی عرصہ خان عبد الغفار خان نے جیلوں اور جلاوطنی میں گزارا۔ 1987ء میں آپ پہلے شخص تھے جن کو بھارتی شہری نہ ہونے کے باوجود “بھارت رتنا ایوارڈ“ سے نوازا گیا جو سب سے عظیم بھارتی سول ایوارڈ ہے۔ 4 جولائی 1987ء کو انڈیا کے دورہ کے دوران دہلی میں اچانک غفار خان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ 50 روز سکرات کی کیفیت سے دوچار رہنے کے بعد پاکستان واپس لائے گئے۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں ستانوے برس کی عمر میں 20 جنوری 1988ء کو اس عظیم قوم پرست راہنما نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور آپ کو وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں دفن کیا گیا۔ افغانستان میں اس وقت گھمسان کی جنگ جاری تھی لیکن آپ کی تدفین کے موقع پر دونوں اطراف سے جنگ بندی کا فیصلہ آپ کی شخصیت کے علاقائی اثر رسوخ کو ظاہر کرتی ہے۔

ابوالکلام محی الدین احمد آزاد

Jump to navigation

Jump to search

 ابوالکلام محی الدین احمد آزاد 

 ابوالکلام محی الدین احمد آزاد

        (پیدائش 11 نومبر1888ء - وفات 22 فروری 1958ء)آزاد ہند کے پہلے وزیرِ تعلیم اور قومی رہنما تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انھیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین افغانی سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنی پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔

مولانا بیک وقت عمدہ انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔ اگرچہ مولانا سیاسی مسلک میں آل انڈیا کانگریس کے ہمنوا تھے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔